بے خوابی کا مرض دنیا بھر میں زور پکڑتا جارہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بے خوابی کوئی بیماری نہیں بلکہ کسی نظر انداز شدہ مسئلے کی علامت ہوتی ہے۔ یہ مختلف عمر کے افراد کو مختلف انداز میں متاثر کرتی ہے۔ ادھیڑ عمر اور عمر رسیدہ افراد کو عموماً آسانی سے نیند آجاتی ہے لیکن وہ رات کو بار بار جاگتے رہتے ہیں جبکہ جواں عمر افراد کے لئے سونا ہی مسئلہ ہوتا ہے۔
ماہرین کے مطابق بے خوابی کے چند نمایاں اسباب درج ذیل ہیں۔ذہنی دبائو، فکر اور انتہائی مصروف معمولات زندگی:حال ہی میں کیے جانے والے ایک تازہ ترین سروے کے مطابق 30 فیصد افراد کی بے خوابی کا بنیادی سبب ذہنی دبائو ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ کیریئر، خاندان اور دیگر ذمہ داریوں کے بوجھ سے ان کی نیند اڑ جاتی ہے۔طبی مسائل:22 فیصد افراد کے مطابق ان کی بے خوابی خراب صحت، درد یا بے آرامی کا نتیجہ ہوتی ہے جیسے جیسے عمر میں اضافہ ہوتا ہے نیند کے حوالے سے مسائل بھی بڑھنے لگتے ہیں کیونکہ معمر افراد زیادہ دوائیں استعمال کرتے ہیں اور بیماریوں میں بھی زیادہ مبتلا ہوتے ہیں لہٰذا جب وہ سوتے ہیں تو ان کی نیند بھی پرسکون نہیں ہوتی۔ سونے کی جگہ کا ناقص ماحول:20 فیصد افراد کا کہنا ہے کہ روشنی، شورو غل یا درجہ حرارت میں کمی یا بیشی ان کی نیند کو متاثر کرتی ہے۔شریک حیات کے خراٹے یا سونے کی ناپسندیدہ عادت:17 فیصد خواتین اور 5 فیصد حضرات کا کہنا ہے کہ ان کے شریک حیات کی سونے کی عادت اور خراٹے انہیں نیند سے محروم رکھتے ہیں۔بے خوابی کی دیگر وجوہ میں کثرت سے ہوائی سفر، کام کی بدلتی ہوئی شفٹیں اور کیبل ٹی وی، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کی بدولت رات بھر جاگنے کی عادت اور رجحان میں اضافہ شامل ہے۔ ماہرین بہتر خواب آور دوائوں کی تیاریوں، نئی کتابوں کی اشاعت اور لوگوں کو ڈاکٹروں کے پاس جانے پر آمادہ کرکے بے خوابی کے خلاف ان کی مدد کے لئے کوشاں ہیں۔ڈاکٹروں کے پاس سونے کی عادت میں تبدیلی کے ذریعے بے خوابی دور کرنے کی جدید ترین تکنیک اور نئی غیر نشہ آور ادویات کا وسیع خزانہ موجود ہے۔
ایک حالیہ جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ بہت کم مریض
ڈاکٹروں کو اپنی بے خوابی کے بارے میں بتاتے ہیں، جب کہ ان کے ڈاکٹر خود بھی پوچھنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔ ’’یہ انتہائی بد قسمتی کی بات ہے کیونکہ بے خوابی سے ہمارے معمولات زندگی اور روز مرہ کارکردگی بری طرح متاثر ہوتی ہے، بے خوابی سے نجات مریض اور ڈاکٹر دونوں کی اولین ترجیح ہونا چاہیے چنانچہ اگر ڈاکٹر نیند کے بارے میں پوچھے تو لاپروائی سے ’’بس ٹھیک ہے‘‘کہہ کر بات ٹالنے کی کوشش نہ کریں بلکہ واضح اور تفصیلی جواب دیں اور اگر وہ بھی نہ پوچھے تو آپ خود بتائیں۔ نیند کے ماہرین نے بے خوابی کو تین درجوں میں تقسیم کیا ہے۔عارضی بے خوابی:کبھی کبھار رات کو نیند نہ آنا ، اس کا سبب دفتر میں کسی اہم میٹنگ کی فکر، شریک حیات سے بحث و تکرار، مالی مشکلات یا کوئی اچھی یا بری خبر یا کسی کا انتظار بھی ہوسکتا ہے۔ جوں ہی متعلقہ سبب دور ہوتا ہے ، نیند کی دیوی دوبارہ مہربان ہو جاتی ہے۔مستقل یا وقفے وقفے سے وارد ہونے والی بے خوابی: اس طرح کی بے خوابی کے دورے ہفتے میں ایک دو بار یا مہینے میں کئی بار حملہ آور ہوتے ہیں۔ اس طرح کی بے خوابی قابل پیش گوئی ہوسکتی ہے۔ متعلقہ شخص اپنے کام کی مقررہ تاریخ قریب آنے پر یا کسی بڑے لیکچر سے پہلے والی راتوں کو نیند سے محروم ہوسکتا ہے۔ یہ کیفیت دیرینہ بے خوابی جیسی پریشان کن نہیں ہوتی لیکن عارضی بے خوابی کی نسبت اس کے حملے زیادہ تواتر اور باقاعدگی سے ہوتے ہیں۔
دیرینہ بے خوابی:شدت اور دورانیے کے لحاظ سے اس کی کئی اقسام ہیں۔ بعض مریض مہینوں بلکہ برسوں سے رات کو سو نہیں پاتے۔ بعض افراد مہینے میں دو ہفتے نیند سے محروم رہتے ہیں۔ دیرینہ بے خوابی کے سب سے بڑے اسباب یا سیت اور فکرو پریشانی ہیں دیگر وجوہ میں طبی مسائل مثلاً جوڑوں کا درد، کوئی بیماری، دل کے عارضے اور کینسر وغیرہ شامل ہیں۔بے خوابی ایک اذیت ناک دائرے کی صورت اختیار کرسکتی ہے۔ کئی راتوں تک بے خوابی کا شکار رہنے کے بعد مریض نیند کے حوالے سے اتنا فکر مند اور ذہنی تنائو کا شکار ہو جاتا ہے کہ دیرینہ بے خوابی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ اگر دیرینہ بے خوابی کا اصل سبب طبی مسئلہ ہو تو اس کا سنجیدگی سے علاج کرانا چاہیے۔ اگر اس کے بعد بھی بے خوابی برقرار رہے تو مریض سونے کی عادات میں تبدیلی کا طریقہ کار یا ڈاکٹروں کی تجویز کردہ خواب آور ادویات استعمال کرسکتا ہے۔ایک حالیہ مشاہدے سے ثابت ہوا ہے کہ عمر رسیدہ افراد نیند کی عادات میں بہتری کے طریقہ کار سے اپنی دیرینہ بے خوابی سے کسی حد تک نجات حاصل کرسکتے ہیں۔ صرف اسی وقت بستر پر دراز ہوں جب نیند کا غلبہ ہونے لگے۔ روزانہ ایک ہی وقت پر بیدار ہوں، خود کو نیند سے محرومی کی کوفت اور تھکن کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے سے گریز کی تربیت دیں۔ بے خوابی کا شکار افراد کو عموماً ٹھیک ٹھیک معلوم ہوتا ہے کہ وہ کیوں بیدار ہوئے لیکن وہ اس مسئلے سے بدترین انداز میں نمٹتے ہیں۔ نیند کے ماہرین کا کہنا ہے ’’ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ بستر پر لیٹ کر زبردستی سونے کی کوشش کرنا اور ہر چند منٹ بعد الارم کلاک کو گھورنا نیند کی دیوی کو منانے کا انتہائی واہیات انداز ہے۔‘‘بے خوابی سے نجات کے لئے نیند کے ماہرین درج ذیل مشورے پیش کرتے ہیں
الارم کلاک پر بیداری کا وقت ضرور سیٹ کریں تاہم اسے نظروں کے سامنے رکھنے کے بجائے کسی ایسی جگہ پر چھپا دیں جہاں سے صبح بیداری کے وقت الارم کی آواز آپ کے کانوں تک پہنچ سکے، بلکہ بہتر یہ ہے کہ وقت بتانے والی ہر شے کو نظروں کے سامنے سے ہٹا دیں تاکہ آپ کا ذہن اس خیال پر نہ اٹک جائے کہ وقت گزر رہا ہے اور آپ کو نیند نہیں آرہی ہے’’اگر ہم پر سونے کے لئے دبائو ہو تو ہمیں نیند نہیں آسکتی۔‘‘آپ کو نیند نہ آئے یا رات کو آنکھ کھل جائے تو بستر میں دراز رہ کر کوئی کتاب یا رسالہ پڑھیں ’’اور جب تک آپ کی آنکھیں نیند سے بوجھل نہ ہو جائیں پڑھتے جائیں، پھر پڑھتے پڑھتے سو جائیں۔‘‘اگر خواب گاہ میں کوئی اور بھی آپ کے ہمراہ محواستراحت ہو تو چپکے سے مہمان خانے یا خواب گاہ کے کسی دور دراز گوشے میں کھسک جائیں اور مطالعہ شروع کردیں لیکن جب آپ پر غنودگی طاری ہونے لگے تو دوبارہ بستر کا رخ کرنے کی کوشش نہ کریں، نقل و حرکت آپ کو بیدار کردے گی، بہتر یہی ہے کہ روشنی بند کرکے وہیں سو جائیں۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ رات کو اگر آنکھ کھل جائے تو بستر سے نکل کر کسی کام میں مصروف ہو جائیں، حتیٰ کہ آپ پر دوبارہ نیند کا غلبہ ہونے لگے البتہ ایک بات پر تمام ماہرین متفق ہیں کہ اندھیرے میں بستر پر دراز ہوکر زبردستی سونے کی کوشش نہیں کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ جو کسی مسئلے پر فکر مند ہونے کے باعث نیند سے بیدار ہوتے ہیں، ماہرین یہ حل تجویز کرتے ہیں کہ وہ اپنے مسئلے پر غورو فکر کے لئے ایک وقفہ مقرر کریں جس پر بستر پر جانے سے پہلے عمل کریں، اگر آپ کسی اہم لیکچر کے سلسلے میں فکر مند ہیں تو اپنے نوٹس کا مطالعہ کریں، اگر آپ باس سے ناراض ہیں تو اسے ایک خط تحریر کریں۔ اگلی صبح یہ فیصلہ کرنا آپ کا کام ہے کہ یہ خط باس کو بھجوانا ہے یا نہیں۔
رات کو نوٹ بک اپنے بستر کے قریب رکھیں۔ اگر آپ رات کو فکر کے عالم میں بیدار ہوں تو اپنے خیالات کو نوٹ بک میں درج کرلیں اور اگلے روز ان مسائل سے نمٹنے کی ترکیب سوچیں۔ نیند کے ماہرین پہلے سونے کی عادت میں تبدیلی کا مشورہ دیتے ہیں۔
اگر یہ طریقہ کار گر ثابت نہ ہو تو ساتھ میں خواب آور ادویات بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ ماہرین کی اکثریت اسی رائے پر متفق ہے کہ اگر عارضی یا مستقل بے خوابی کے دورانیے کا قبل از وقت اندازہ لگانا ممکن ہو تو ان ایک، دو یا تین راتوں میں خواب آور دوا کی ایک گولی کھانا بے خوابی سے نجات کا محفوظ اور موثر طریقہ ہے۔ یہ ترکیب سب لوگوں پر کارگر نہیں ہوتی لیکن آزمانے میں کوئی ہرج نہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ’’اگر آپ کی نیند بہتر ہو جائے تو آپ کو خود میں نہایت خوشگوار تبدیلیاں محسوس ہوں گی۔ آپ خود کو زیادہ خوش امید، چاق و چوبند، بیدار، مغز، توانا اور کار آمد پائیں گے۔‘‘
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں